دہ کے معنی
دہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ دِہ }{ دَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٨٠ء کو سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, iفارسی زبان سے اسم صفت عددی ہے۔ پہلوی میں بھی مستعمل ہے۔ امکان ہے کہ پہلوی سے فارسی میں اور پھر فارسی سے اردو میں داخل ہوا ہو۔, m["تکلیف دہ","دینا","اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل ترکیبی بناتا ہے اور دینے والے کے معنی دیتا ہے جیسے تکلیف دہ","بجائے دُس کے مرکبات میں استعمال ہوتا ہے","بہت گہرا پانی","بہت گہرا جوہڑ","دادن مصدر کا صیغہ امر","دینے والا","مرکبات میں جیسے آرام دہ"]
اسم
اسم ظرف مکاں ( مذکر - واحد ), صفت عددی
اقسام اسم
- جمع : دِہات[دِہات]
دہ کے معنی
"اہل دو کے لیے یہ بہت بڑا حادثہ تھا۔" (١٩٦٧ء، ساقی، جولائی، ٧)
دہ کے جملے اور مرکبات
دہ خدا, دہ چند
دہ english meaning
a villageTen(of star) shoota giver (used in compos) asbrimful [A~ امتلا]cometdespoildevastatehave frequest tiffslose one|s consort (by death or otherwise)plunderransackravageused in compund words as suffix
شاعری
- کہو کس سبب سے ہو پرم دہ دل
تمہارا مگر غم سے ہے آب وگل - راھت دہ عاشقان مہجور
آرام رسان جان رنجور - بھلا ہم اور کیا تکلیف دہ اے جان جاں ہوتے
کچھ اپنا حال دل کہتے اگر تم مہرباں ہوتے - سو گز دہ در دہ کا شمار
تنکھا بھی بہتا ہے بچار - چونکا جو بدن جھاڑ کے شیدیز صبادم
زینت دہ زیں پوش ہوئے سید عالم - کم اندیش ہے چار دہ سال کا
پرو بال دھرتا ولے بال کا - کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو ہی
دل گم کر دہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو - جو کہیے فیل اسے بہتان ہے یہ
عجائب تو دہ طوفان ہے یہ - کریں بڑائی ہو پرور دہ باس سوں تیری
عبیر عود چوا مشک برمکی صندل - درد دہ لک اس نبی پر جو نرنجن رب کے پیارے ہیں
جو فیروزی مہاڑیاں نو جنن کے تیں سنگارے ہیں
محاورات
- دمش برداشتم مادہ برآمد
- آئندہ اختیار بدست مختار
- آئندہ کو کان ہوئے
- آئے آم جائے لبیدہ
- آب خوردہ
- آب ندیدہ موزہ کشیدہ
- آبرو جان سے زیادہ عزیز ہے
- آپ زندم (زندہ) جہاں زندم (زندہ) آپ مردم (مردہ) جہاں مردم (مردہ)
- آپ زندہ جہان زندہ آپ مردہ جہان مردہ
- آپ زندہ جہاں زندہ‘ آپ مردہ جہاں مردہ