شریر کے معنی

شریر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ شَرِیر }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٧٧٢ء کو "دیوانِ فغاں" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پُرخاش گر","تقصیر وار","رزم جُو","رزم کوش","شر انگیز","شرارت پسند","عیب دار","فتنہ پرداز","گناہ گار","مفسدہ پرداز"]

شرر شَرِیر

اسم

صفت ذاتی

شریر کے معنی

١ - شرارت کرنے والا، چھیڑ چھاڑ کرنے والا، فسادی، شوخ، بے لگام، بے باک۔

"پھول سیدھے سادھے ہرگز نہیں ہوتے وہ انتہا سے زیادہ شریر ہوتے ہیں۔" (١٩٨٧ء، مدو جزر، ٩)

٢ - بدطینت، بدذات، سرکش۔

"آپ نے اسامہ بن زید کو مامور کیا کہ وہ فوج لے کر جائیں اور ان شریروں سے اپنے باپ کا انتقام لیں۔" (١٩١٤ء، سیرت النبی، ١٧٠:٢)

شریر کے مترادف

شاطر, شوخ, جنجالی, سور, بدعتی, فاسد, جھمیلا, فسادی, شر انگیز, شرارتی

بد, بدباطن, بدچلن, بدذات, بدقماش, بدمعاش, برا, پُرخاش, تیز, جُو, جھگڑالو, خبیث, خراب, شرارتی, شَرہ, شوخ, غصیل, فسادی, متفنی, مفسد

شریر english meaning

evilbadcorruptwicked*celebrityfamerenownto name (a child)

شاعری

  • جاگہ نہیں یاں رویئے جس پر نہ کھڑی ہو
    کچھ شور ہو شریر تو مجھے یاد کرو گے
  • آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
    ان دنوں تم بہت شریر ہوئے
  • پہنچے شریر دشت سے دارا لبوار میں
    جو پھونکتے تھے آگ وہ پھکتے ہیں نار میں
  • اک نظر دیکھوں تو یوں کہتی ہے وہہ چتون شریر
    آنکھوں ہی آنکھوں میں کیفیت اڑائے جائیے
  • بلند عدل کا ہے آپ کے جو آوازہ
    ستاتے ڈرتے ہیں عاشق کو شاہدان شریر
  • جا پرے ہٹ، نکل، سرک، چل دور
    ہے سبق اس شریر چنچل کا
  • راکب جو بد سرشت تو مرکب تھا بد رکاب
    دونوں شریر سبز قدم خانماں خراب
  • برنائی ہی میں تم سے شرارت نہیں ہوئی
    لڑکے سے بھی تھے تم تو قیامت شریر تھے
  • جواں تو کیا ترے پیروں سے بڑھ گئے اطفال
    ارے شریر بزرگی بعقل ہے نہ بسالی
  • قتل کرنے میں بھی یہ حیلے حیف
    یعنی جل جل مروں میں بل بے شریر

محاورات

  • بڑا شریر (شہدہ یا شیطان) ہے

Related Words of "شریر":