صاحب کے معنی

صاحب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ صا + حِب }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ عربی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم نیز گا ہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٩١ء کو "قصہ فیروز شاہ (قلمی نسخہ)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["انگریزوں اور بڑے افسروں کا لقب","بڑے آدمیوں کو جی کی بجائے جواب میں صاحب یا جی صاحب کہتے ہیں","جناب یا حضور کی جگہ","خدا تعالی","شوہر زوجہ کو اور زوجہ شوہر کو خطاب کرتی ہے","والدہ یا چچی وغیرہ کے ساتھ بجائے صاحبہ","کلمہ تعظیم خطاب کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے خاں صاحب مولوی صاحب","ہم دم"]

صحب صاحِب

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), صفت ذاتی ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • ["جنسِ مخالف : صاحِبَہ[صا + حِبَہ]","جمع : صاحِبان[صا + حِبان]","جمع ندائی : صاحِبو[صا + حِبو (و مجہول)]","جمع غیر ندائی : صاحبوں[صا + حبوں]"]

صاحب کے معنی

["١ - القاب جو اسماء کے بعد عزت و احترام کے لیے مستعمل ہے۔","٢ - کلمہ تعظیم یا تخاطب؛ مراد: حضرت، جناب، آپ۔","٣ - آقا، مالک، مخدوم، افسر۔","٤ - شوہر، خاوند، (پیشتر خطاب کے موقع پر)۔","٥ - زوجہ، بی بی (بیشتر خطاب کے موقع پر)۔","٦ - بول چال میں والدہ یا بیوی وغیرہ الفاظ کے بعد بطور تعظیم بجائے صاحبہ کے مستعمل۔","٧ - دوست، رفیق، ساتھی، ہمنشین۔","٨ - محبوب یا معشوق کے لیے کلمۂ خطاب۔","٩ - غیر معین شخص، شریف آدمی نیز ہر شریف شخص کے لیے کلمہ خطاب۔","١٠ - یورپین، انگریز (جو مخدوم یا افسر ہو)۔"]

["\"ایک دفعہ مہندر نے اس سے کہا کہ دلجیت کے گھر گرنتھ صاحب کا ختم ہے وہ بھی اس کے ساتھ چلے۔\" (١٩٦٦ء، انگلیاں فگار اپنی، ١٤٠)"," ہم سے اس درجہ تغافل بھی نہ لر تو صاحب ہم بھی کچھ اپنی دعاؤں میں اتر رکھتے ہیں (١٩٧٥ء، پچھلے پہر، ٧٤)","\"سپاہی کے واسطے کوئی چیز اس سے بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنے صاحب کی ذات کی حفظ و حمایت میں اپنی جان فدا کرے۔\" (١٨٩٧ء، تاریخِ ہندوستان، ٢٨٨:٣)"," وفورِ شرم سے حالت خراب ہے صاحب علی کی جائی کو خوفِ عتاب ہے صاحب (١٩١٢ء، شمیم، ریاض شمیم، ٩:٥)"," صاحب بھلا عدم کے مسافر کو کیا حجاب ہم یوں ہیں جس طرح کہ سرِآب ہو حباب (١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٩٤:٣)","\"ارے بھائی بات سمجھا کرو . یہ مجھ سے کیسے ممکن ہے کہ میں اس کو چھوڑ دوں محض بیوی صاحب کی خاطر۔\" (١٩٦٣ء، قاضی جی، ٢٠٥:٣)"," شقی تھا تخت حکومت پہ گرد صاحب تھے دو رویہ کرسیوں پر سات سو مصاحب تھے (١٩١٢ء، اوج (نوراللغات))"," چپ چاپ بیٹھنے میں تو صاحب مزا نہیں شوخی کی چھیڑ چاہیے کچھ کچھ حیا کے ساتھ (١٩١١ء، ظہیر دہلوی، دیوان، ١١٤:٢)","\"میں صاحب آدمی ہوں میرا سرمایہ سب کی نظر کے سامنے ہے جس کا دل چاہے آئے دیکھ لے۔\" (١٩٧٠ء، قافلہ شہیدوں کا (ترجمہ)، ٦٩٧)"," مل گیا حضرت لیڈر کو تو صاحب سے ڈنر کیا ہوا، اس سے اگر قوم کا فاقہ نہ گیا (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٥)"]

["١ - جس سے کوئی چیز یا بات منسوب ہو، رکھنے والا، مالک یا قابض کے معنی میں (اضافت کے ساتھ یا بلا اضافت مستعمل)۔","٢ - [ کنایۃ ] خدا تعالٰی۔"]

["\"آپ اپنے عہد کے مشہور واعظ اور صاحب تصنیفات کثیرہ ہیں۔\" (١٩٤٦ء،شیرانی، مقالات، ٢٢٣)","\"صاحب (اللہ) نے ان کی عرض سن لی اور جانوروں کی کھالوں کھروں اور سروں میں روح ڈال دی۔\" (١٩٦٢ء، مکایاتِ پنجاب، ٨٨:١)"]

صاحب کے مترادف

آقا, آور, بابو, خداوند, دوست, ذو, ذی, اہل, مالک, حضرت, ساتھی

آقا, پتی, حاکم, خدا, خُداوند, دوست, رفیق, ساتھی, سردار, سرکار, قائد, مالک, متبوع, مِتر, مطاع, معشوق, مقتداء, والا, والی, یار

صاحب کے جملے اور مرکبات

صاحب خانہ, صاحب حیثیت, صاحب ثروت, صاحب الرائے, صاحب استطاعت, صاحب بصیرت, صاحب ترتیب, صاحب فرہنگ, صاحب نظر, صاحب کتاب, صاحب فراش, صاحب طرز, صاحب سلامت, صاحب زادہ, صاحب ذوق, صاحب دیوان, صاحب دل, صاحب تقوی, صاحب جمال, صاحب جائداد, صاحب تدبیر, صاحب تاثیر, صاحب باطن, صاحب ایمان, صاحب الزمان, صاحب حال, صاحب ایجاد, صاحب اولاد, صاحب نسبت, صاحب کمال, صاحب شعور, صاحب قلم, صاحب کلام, صاحب علم, صاحب ایثار, صاحب علاقہ, صاحب الشرطہ, صاحب عقل, صاحب صدر, صاحب غرض, صاحب فن, صاحب فطرت, صاحب فراست, صاحب وفا, صاحب ہنر, صاحب ہمت, صاحب مسند, صاحب اقتدار, صاحب الامر, صاحب ارشاد, صاحب اثر, صاحب اخلاق, صاحب اقبال

صاحب english meaning

(col. sáb) ((Plural) اصحاب asháb, صاحبان sáhibán|)(courtesy title put at end of name) Mr. (F. میم mem, میم صاحبہ mem|sa|hibah) Englishman(F. صاحبہ sa|hibah) Westernized Oriental(rare) companiona companiona European gentlemana gentlemana lorda mastera title of courtesy as Mr. or Sir etcan officerAnglophilecourtesy title appended to masculine or feminine namesmaster

شاعری

  • قسم جو کھایئے تو طالع زلیخا کی
    عزیز مصر کا بھی صاحب اک غُلام لیا
  • ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
    درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
  • ہم کو شاعر نہ کو میر کہ صاحب ہم نے
    درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
  • قسم جو کھایئے تو طالع زلیخا کی
    عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا
  • آنکھ اس سے نہیں اٹھنے کی صاحب نظروں کی
    جس خاک پہ ہوگا اثر اُس کی کفِ پا کا
  • شعر صاحب کا مناسب ہے ہماری اور سے
    سامنے اُس کے بڑھے گریہ کوئی جا آشنا
  • جوں توں کر حال دل اکبار تو میں عرض کیا
    میر صاحب جی بس اب باردگر مت پوچھو
  • میر صاحب نئی یہ طرز ہو اس کی تو کہوں!
    موجب آزردگی کا وجہ غضب مت پوچھو
  • میر صاحب زمانہ نازک ہے
    دونوں ہاتھوں سے تھامئے دستار
  • برنگ بوئے غنچہ عمر اک ہی رنگ میں گزرے
    میسر میر صاحب گر دِل بے مدعا آوے

محاورات

  • ابھی تم صاحبزادے ہو یا نورس ہو
  • اچھا صاحب یونہی سہی
  • جب کمر میں زور ہوتا ہے تب مدار صاحب بھی بیٹا دیتے ہیں
  • جل تو جلال تو (صاحب یا عز کمال تو) آئی بلا کو ٹال تو
  • جن پائیں پنہی نہیں انہیں دیت گجراج۔ بگھ دیتے بیکھا ملے صاحب گریب نواج
  • دوس کیا دیجے چور کو صاحب بند جب آپ گھر کا در نہ کیا
  • دونوں ہاتھوں سے تھامئے پگڑی (دستار) شیخ صاحب زمانہ نازک ہے
  • زمین ٹلد نہ ٹلد مرزا صاحب
  • ساری (١) صاحبی اور گچ کا سونا
  • ساری صاحبی اور گچ کا سونا

Related Words of "صاحب":