صف کے معنی
صف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ صَف }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک گاؤں","سیتل پاٹی","قطار میں رکھنا","نمازیوں کی قطار","وہ جگہ جہاں قطاری باندھیں"]
صفف صَف
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : صَفیں[صَفیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : صَفوں[صَفوں (و مجہول)]
صف کے معنی
"ہر ایک صفت کے درختوں کے تاج ایک ہی سطح پر . پھیلے ہوئے (ہیں)۔ (١٩٠٤ء، تربیتِ جنگلات، ٩٤)
ابھی وقت ہے کہ ایک صف میں کھڑے ہو کے آو تو بخشش کا سامان کرلیں (١٩٦٢ء، ہفت کشور، ٣٣٤)
"تنکوں کی بنی ہوئی ٹوپیاں . وہ ایک ایک کر کے مسجد میں بچھی ہوئی صفوں پر رکھنے لگا۔" (١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ٨٥)
"بہت سے ایسے تھے جو اپنی صف میں کمزور ہونے کی وجہ سے باہر کے اساتذہ سے سبق کا اعادہ کرتے تھے۔" (١٩١٤ء، مقالاتِ شبلی، ١٣٠:٨)
صف کے جملے اور مرکبات
صف شکن, صف ماتم, صف آرا, صف محشر, صفدر, صف بستہ, صف انداز
صف english meaning
A rankrowlineorder; a company of men standing in a ranktumbling (pigeon)
شاعری
- اک رہا مژگاں کی صف مین ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میر دونوں اپنے غمخواروں میں تھے - عشاق پر جووے صف مژگاں پھریں تو میر
جوں اشک کتنے چو گئے کتنے ٹپک گئے - صف بستہ ہیں ہر موڑ پہ کچھ سنگ بکف لوگ
اے زخمِ ہنر‘ لطفِ پذیرائی تو اب ہے - میں درختوں کی صف کا بھکاری نہیں
بے وفا موسموں کی قبائیں نہ دے - سہے جس کی صف میں چپ و راستہ
ارسطو تی ہر مرد آراسے - ظفر تج گھر ہے چاکر ہور وندیاں کی صف پہ تو ور ہے
بہے طوفاں کا لہر ہو تری شمشیر کا پانی - خوبی رود چشم سے آنکھیں آتک گئیں
پلکوں کی صف کو دیکھ کے پھیڑیں سرک گئیں - پاس ادب سے شاہ کے صف بڑھ کے تھم گئی
پٹری پر اک سوار کی گھوڑے پہ جم گئی - روز وصال میں بھی اٹھاتے نہیں وہ آنکھ
بچھی ہی رہتی ہے صف مژکاں تمام دن - اگاڑی مست صف گل عذار چلتی ہے
پچھاڑی عاشقوں کی سب قطار چلتی ہے
محاورات
- آئینہ صفر میں دیکھنا
- آفتاب نصف النہار پر پہنچنا
- آفتاب کا نصف النہار پر پہنچنا
- ال (١) مکتوب نصف الملاقات
- اللہ رے تیرے دیدے کی صفائی
- المکتوب نصف الملاقات
- پھاؤڑے کے نام گل صفا نہیں جانتا
- تصفیہ کرنا
- جدھر مولا ادھر آصف الدولہ
- چار ابرو کا صفایا