پرسش کے معنی

پرسش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ پُر + سِش }

تفصیلات

iفارسی میں مصدر |پُرسیدن| سے حاصل مصدر |پُرسش| اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آؤ بھگت","باز پرس","باز پرس کرنا","پوچھ پاچھ","پوچھ گچھ","تحقیق کرنا","خاطر تواضع","خبر گیری (کرنا ہونا کے ساتھ)","دریافت کرنا"]

پُرسیدن پُرْسِش

اسم

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )

اقسام اسم

  • جمع : پُرْسِشیں[پُر + سِشیں (ی مجہول)]
  • جمع غیر ندائی : پُرْسِشوں[پُر + سِشوں (و مجہول)]

پرسش کے معنی

١ - پوچھنا، دریافت، استفسار۔

"مسجد جامع کے باب میں کچھ پرسشیں لاہور سے آئی تھیں، یہاں سے ان کے جواب مل گئے ہیں۔" (١٨٦٢ء، خطوط غالب، ٤٣٧)

٢ - مواخذہ

 گلشن کا ذرہ ذرہ پیے بے دھڑک شراب اور ہم خیال پرسش روز جزا کریں (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٢١٤)

٣ - خبر گیری، توجہ۔

 کلثوم اڑا دے گی کھڑی ہوکے بہت خاک پرسش پرسش نہ کرے گا کوئی اس خاک ملی کی (١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٦٨٩)

٤ - بیمار کی مزاج پرسی، عیادت۔

"میرافلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی پرسش نہ کی۔" (١٩٣٥ء، سیرۃ النبیۖ، ٥، ٤٨٥)

٥ - قدرو منزلت، عزت۔

"جب سے نقلی رنگ اہل مغرب نے ایجاد کر لیے ہیں ہندوستانی رنگوں کی کوئی قدر یا پرسش باقی نہیں رہی۔" (١٩٤٠ء، معدنی رباغت، ١٠٨)

پرسش english meaning

asking; questioning; interrogating; inquiring; inquiry (generally after healthAskinginquiryquestioning

شاعری

  • اس کی نہ پوچھو دوری میں اُن نے پرسش حال ہماری نہ کی
    ہم کو دیکھو مارے گئے ہیں آکر پاس وفا سے ہم
  • نہ جانوں روز محشر کیوں اچھے کا خاب و پرسش منج
    کہ میخواراں منے اب تو ہمن مشہور کر ساقی
  • وہ قبر کا ڈر پرسش اعمال کا وسواس
    اوس ملک سے دنیا میں پھر آنے کی نہیں آس
  • اتھے پہلواناں میں حمزہ قوی
    تھے پرسش میں محمود شہ غزنوی
  • نہ جانوں روز محشر کیوں اچھیگا جاب و پرسش بنم
    کہ میخواراں منے اب تو ہمن مشہور کر ساقی
  • پاسِ خاطر تھا اگر ، تو رنج کیوں ہم کو دیئے
    اب عبث ہے اسکی پرسش ، دل بھر آیا رو دیئے
  • پرسش کو کام کھینچتا ہوتا جو کوئی داور
    اس طور گھر کو لوٹا دیتے ہیں جیسے ڈاکا
  • اتھے پہلواناں میں حمزہ قوی
    تھے پرسش میں محمود شہ غزنوی

محاورات

  • پرسش کرنا

Related Words of "پرسش":