اتصال
{ اِت + تِصال }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مزید فیہ کے باب "افتعال المعتل واوی" سے مصدر ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٣٢ء کو "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔
["وصل "," وصل "," اِتِّصال"]
اسم
اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
اتصال کے معنی
شعر کیا ہے عقل و جنوں کی مشترک بزمِ خیال شعر کیا ہے عشق و حکمت کا مقامِ اتصال (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥٧)
"راجا وہاں کا . پہاڑ کے اتصال کے سبب امرائے بادشاہی سے اکثر اوقات بگڑا رہتا ہے۔" (١٨٠٥ء، آرائش محفل، افسوس، ٢١٤)
یہ اتصال اشک جگر سوز کا کہاں روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب (١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٦٦)
ہو گیا ثابت شکر لب ہوتے ہیں شیریں کلام اتصال ذائقہ شہد و شکر میں دیکھ کر (١٨٧٢ء، دیوان قلق (مظہر عشق)، ٧٢)
"بینک ہوٹل سری نگر کی سڑک اور مری کی سڑک کے اتصال پر واقع ہے۔" (١٩٤٤ء، سوانح عمری و سفرنامہ (حیدر)، ١٦٦)
"اور عدم سکوت کا نام اتصال ہے۔" (١٩٥٦ء، مقدمہ مشکوٰۃ شریف(ترجمہ)، ٨:١)
"سر کے اتصال طبعی میں فرق آ جانے سے وہ کمزور ہو جاتا ہے۔" (١٩٤٧ء، جراحیات زہراوی، ٦)
جانتے ہو تم کہ کیا ہے اتصال? وہ کشش ہیں جس سے ذرات ایک جا (١٩١٦ء، سائنس و فلسفہ، ٨٠)
"یہ حرف الف کئی خواص رکھتا ہے، کبھی اتصال کے لیے آتا ہے، جیسے : لبالب اور دمادم وغیرہ۔" (١٨٧٣ء، عقل و شعور، ٨١)
شرف گھر سے وہ کرتا ہے اتصال ہے مشہور خانہ جدی میں کمال (١٩٠٢ء، سیر افلاک، ٧)
"پوپ نے اتصال اور اشتقاق یا تصریف جیسی اصطلاحوں کو استعمال نہیں کیا ہے۔" (١٩٦٤ء، زبان کا مطالعہ، ٥٧)
مترادف
سنگم, اقتران
مرکبات
اتصال الشہود, اتصال الوجود
انگلش
["Conjunction","contact; contiguity","neighbourhood; connection","adhesion","union","attachment."]