استسقا کے معنی
استسقا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ اِس + تِس + قا }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب استفعال مہموز اللام سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ عربی میں اصل لفظ |اِسْتِسْقاء| ہے آخری |ء| کی آواز نہ ہونے کی وجہ سے |استسقا| مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٥١ء کو |ترجمۂ عجائب القصص" میں مستعمل ملتا ہے۔
["سقی "," اِسْتِسْقا"]
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
استسقا کے معنی
"دعائے استسقا کے لیے آتے ہیں۔" (١٨٥١ء، ترجمہ عجائب القصص، ٦٧٣:٢)
"(حضرت) عمر فاروق، پیغمبر صاحب (صلعم) کے چچا عباس کو ساتھ لے کر استسقاء کے لیے نکلے۔" (١٩٠٧ء، اجتہاد (ضمیمہ نمبر ٢)، ١٢٥)
"فالج، لقوہ، استرخا، استسقاء . اڑنچھو نہ ہو جائے تب کی سند۔" (اودھ پنچ، لکھنو، ضمیمہ، ١٨، ١١:٦)
استسقا english meaning
["dropsy"]