نوا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے (غالب)
نکلنا
عشق وہ چیز ہے دکھلائے اگر جذب اپنا خاک سے قمریوں کی شاخ صنوبر نکلے (آغا)
منافقت
"تنگ نظری اور منافقت . کی طرف شاہ لطیف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔" (١٩٨٩ء، آثار و افکار، ١٧٩)
منافع
"سرمایہ داری معاشرہ صرف ایک چیز پر یقین رکھتا ہے اور وہ ہے منافع۔" (١٩٩٠ء، دوسرا رخ، ١٤٩)
ملت
"یہ ایک قومی المیہ ہے اور خاص طور پر پاکستان میں ایسے مجاہد دین و ملت کی پذیرائی ضرور ہونی چاہیے۔" (١٩٨٩ء، آثار و افکار، ٥٠)
منافق
دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا (١٩٨٣ء، نابینا شہر میں آئینہ، احمد فراز، ٩٧٧)
نعمت
کوئی مطلب موجود نہیں
آخوند
دیکھو آخوِند بھی آ پہنچے کرو جھک کے سلام یہ وہ ملا ہیں محلے میں ہے جن کا مکتب (١٩٢٧ء، مرقع لیلٰی و مجنوں، ١٦)
بادہ فروش
شبنم کی بوند میں مئے عرفاں کا جوش ہے ہر برگ گلستاں کف بادہ فروش ہے (١٩٦٥ء، اطہر، گلدستۂ اطہر، ٤٤:٢)
واسطہ
تم رقیبوں سے ملے ہم نے بھی دل بہلا لیا اب ہمارا آپکا وہ واسطہ جاتا رہا (نسیم دہلوی)
غائب
"ساری ترجیحات میں عورت غائب ہے۔" (١٩٨٧ء، آجاؤ افریفہ، ٢١٠)
غذا
"وہ شخص کھانے کو اس طرح جٹتا جیسے صدیوں کا بھوکا ہے اور سارے شہر کی غذا چاٹ جائے گا۔" (١٩٨٧ء، آخری آدمی، ٦٢)
مجرم
"راستہ چلنے والے رک گئے اور ہمیں اس طرح دیکھنے لگے جیسے ہم مجرم ہوں۔" (١٩٩٢ء، قومی زبان، کراچی، ستمبر، ٥٩)
مجبور
["\"اٹھ کر اپنے کوٹھری جیسے کمرے میں چلا گیا، مجبور لاچار، کچھ تھکا تھکا سا۔\" (١٩٨٢ء، خدیجہ مستور، بوچھار، ١٤٢)"]
مجاہد
"مولانا حسرت موہانی کی شخصیت دراصل ایک عاشق، ایک مجاہد . اور ایک مرد حق آگاہ کی شخصیت ہے۔" (١٩٩٠ء، نگار، کراچی، مئی، ٣)
مجامعت
"بلہارا کے ملک میں شادی شدہ عورتوں کو چھوڑ کر سب کے ساتھ مجامعت کی اجازت ہے۔" (١٩٨٨ء، برصغیر میں اسلامی کلچر، ١٦٨)
مجال
"اب کس کی مجال ہے جو انہیں غلط کہے۔" (١٩٩٥ء، نگار، کراچی، ستمبر، ١٣)
مجازاً
"دوسری آیت میں باطل کے علمبردار کو بھی مجازاً یا تعریفاً امام کہہ دیا گیا ہے۔" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٢٢٤:٣)
مثلاً
"مقبول عام ناولوں میں ایک مضحکہ خیز قسم کی ذات ہی دریافت ہو سکتی ہے مثلاً"بہار دور نہیں" کا بنیادی نتیجہ اس قدر ڈھیلا ڈھالا ہے۔" (١٩٨٦ء، فکشن فن اور فلسفہ، ٧٩)
بادۂ ریحانی
ساقیا آج تو وہ بادۂ ریحانی ہو جس کے آگے ترے کوثر کی بھی مے پانی ہو (١٩٦٥ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، ٣)
مٹکا
"مندر کی چاردیواری میں ایک پیپل کا درخت ہے جس کے نیچے رستے کے عین نکڑ پر پانی کا مٹکا ہے۔" (١٩٩٦ء، افکار، کراچی، فروری، ٦٧)
مٹاپا
"ہر پسلی زبان کی طرف نظر آتی ہے اب اس کا مٹاپا جاتا رہا۔" (١٩٢٨ء، سلیم (وحید الدین)، افادات سلیم، ٦٢)
متوکل
"حضورۖ سے زیادہ متوکل آپۖ کبھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے۔" (١٩٨٢ء، نگار، کراچی، جولائی، ٥٢)
متوفی
"متوفی ملازم یا پینشز کی بیوہ کو دس سال تک پنشن ملتی رہی۔ (١٩٨٨ء، اردو نامہ، لاہور، مئی، ٢١)
مجتمع
"مسلمانان ہند کے . مجتمع ہونے سے بالآخر نہ صرف ہندوستان کا بلکہ ایشیا کا بھی مسئلہ حل ہو جائے گا۔" (١٩٩٥ء، اردو نامہ، لاہور، مئی، ٢١)
مجبوراً
"جال میں پھنس کر بہت سی مچھلیاں پانی میں پھڑ پھڑانے لگیں اور جو بچ گئیں مجبوراً پانی کی نچلی سطح پر جانا پڑا۔" (١٩٨١ء، قطب نما، ١٥)
متنازع
"ادبی برصغیر میں کوئی دوسرا نام ایسا نہیں ہے جو اُن کے برابر متنازع رہا ہو۔" (١٩٨٦ء، آنکھ اور چراغ، ٢٤٩)
متمدن
"ہم اپنے آپ کو ایک نہایت متمدن . قوم کا جانشین خیال کرتے ہیں۔" (١٩٩٥ء، نگار، کراچی، اکتوبر، ١٢٥)
متلاشی
"ڈاکٹر صاحب حق و صداقت کے متلاشی ہیں۔" (١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، حیات و خدمات، ٤٥٦:٢)
مجنون
"میں نے کہا کہ میں جن بھی ہوں اور اور مجنون بھی۔" (١٩٨٩٧، ریگ رواں، ٢١)
بادہ خواری
"یہ ہماری شدید بادہ خواری کے انسداد اور روک کے لیے کی گئی ہے۔" رجوع کریں:بادَہ خوِار (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٤٠٤:٢)
غصب
"حق العباد کے غصب کا ایک نہ ایک روانہ ارتکاب ہوتا ہے۔" (١٩٨٦ء، جوالا مکھ، ١٦٩)
مچھلی
"مچھلی نیبو کے عرق میں پیاز بھون کر تلی گئی تھی" (١٩٩٠ء، کالی حویلی، ٧٥۔)
نبی
ثنا اس کی محمدۖ سا نبی جس نے ہے بھیجا سلام اس پر جو ہے محبوب اور مہمان اس کا (١٩٩٣ء، زمزمۂ اسلام، ٣٧۔)
مزاج
"اجزائے جسمی چند طرح کے ہیں جو کہ اول مزاج اخلاس سے متولد ہوئے۔" (١٨٧٧ء، عجائب المخلوقات، (ترجمہ) ٤٤٢)
مربع
"مربع کے ہر ضلعے کی مقدار برابر ہوتی ہے۔" (١٩٨٨ء، ریاض چوتھی جماعت کے لیے، ١١٩)
نتیجہ
"تین سال گزر گئے لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔" (١٩٩٠ء، وفاقی محتسب کی سالانہ رپورٹ، ١٥٠)
نبض
ہوائیں مرے سانس کی نبض بن کر دھڑکتی ہیں اور تیز تر ہو رہی ہیں (١٩٨١ء اکیلے سفر کا اکیلا مسافر، ١٧۔)
منجن
"بریلی کا سرمہ اور منجن بیچنے کے لیے . مجمع لگا چکے تھے۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢٦٣)
منتظر
"وہ سانس لے رہا ہے، اس کی پھنکار بدستور ہے وہ منتظر ہے۔" (١٩٨٩ء، ہنزہ داستان، ٣٨)