آب خورا
"جو آیا غڑپ سے آبخورہ ڈال، پانی پی پٹخ پٹخا چلتا ہوا۔" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٠٤)
آب و تاب
"پینے کے قطرے نرم و نازک رخساروں پر پیشانی کی طرف سے بہتے ہوئے آ رہے تھے اور موتی بن بن کر آب و تاب سے چمک رہے تھے۔" (١٩١٢ء، شیہد مغرب، ٥)
تانا[1]
"اس نے نہایت نفیس پوشاک پہنی جس کا تانا سونے کا تھا۔" (١٩٤٤ء، "الف لیلہ و لیلہ" ٥، ٤١١۔)
تانا بتھاری[1]
"مہر کے دعوے میں تانا بتھاری وکیلوں کی ہانڈی گرم۔" (١٩٢٦ء، نور اللغات۔)
تاناشاہی
"جہاں ایک سے ایک تانا شاہی مزاج کا آدمی ہوتا ہے۔" (١٩٤٣ء، "دلی کی چند عجیب ہستیاں")
آ آکر[3]
شہر میں بھی ترے دیوانے کو اے رشک پری روز آ آ کے ستاتی ہے بلاے غربت (١٨٧٠ء، چمنستان جوش، ٢٣)
آ کر
"یہاں بغیر بلائے آکر بھی نہیں بھٹکتے۔" (١٨٩٢ء، عمر و عیار کی سوانح عمری، ١٤٦)
آب انگور
سینۂ نوری میں تیرے ذق مہجوری بھی ہے? کیا ترے جام گل میں آب انگوری بھی ہے? (١٩٢٦ء، جوے شیر، آنند نراین لمد، ٧)
آب آمیز
"خشک حالت میں غشا خلیہ کی دبازت ٦.-٥. مائیکرو ملی میٹر تک ہوسکتی ہے، لیکن زندہ حالت میں یہ پانی کے ایک کیمیائی مرکب کی صورت میں آب آمیز ہوتی ہے"۔ (١٩٦٣ء، ماہیت الامراض، ٣٩:١)
آب بردار
"جلوس کے ساتھ سواری نکلا کرتی تھی، آب بردار جھنڈی بردار، عصا بردار تلنگے سپاہی. سواری کے ساتھ رہتے تھے۔" (١٩٢٦ء، حیات فریاد، ٦٢)
آب بند
"اس کالر کو آب بند بنانے کے لیے پہلے تیل سے بھگو لیا جاتا ہے۔" (١٩٢١ء، سکون سیالات، ٢٨٧)
بار زہ
"شیخ و شید رضا نے جو ان شخصیات بارزہ میں سب سے نمایاں شخصیت تھے . ایک تعدیل طیار کی تھی۔" (١٩٢٦ء، مسئلہ حجاز، ١٠١)
باغ سبز
فریب رزق میں دانا بھی ہو تو منہ کی کھاتا ہے کہ باغ سبز ہے ہر آدمی کو کھیت گیہوں کا (١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٣)
باغ رواں
"جہاز کے گرد باغ رواں خوشبو سے معطر۔" (١٨٧٩ء، بوستان خیال، ٣١٢:٦)
اضحی
تیغ مسلم سے وہ بہتا ہوا کوفے میں لہو دن میں اضحی کے وہ قربانی افواج عدو (١٩١٢ء، شمیم، مرثیہ (ق)، ١٤)
آ[2]
"سم پر پہنچ کر سب سے سر ہل جائیں گے اور ہم اور آپ بے ساختہ آپکار اٹھیں گے۔" (١٩٥٥ء، حسرت (چراغ حسن)، مطایبات ١٦)
ارنی[1]
رہتا تھا وہ جس پیڑ پہ وہ پیڑ تھا برنا آئے کہیں اس دشت میں اک ارنی و ارنا (١٨٣٠ء، کلیاتِ نظیر، ١٩٤:٢)
تاللہ
"واللہ، باللہ، تاللہ . کیا خوب ارشاد فرمایا ہے۔" (١٩٢٩ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٤: ٩:٤)
تاگڑی
"ایک میلی لنگوٹی وہ بھی پرانی اور چھوٹی بال کی تاگڑی میں اوڑی، اسباب دنیا سے یہ جھونپڑی میں اللہ کا نام۔" (١٩٢٨ء، باتوں کی باتیں، ١٥)
باز یابی
"تخت کی بازیابی میں بیرم خاں ہمیشہ اس کا دست راست رہا۔" (١٩٦٥ء، تاریخ پاک و ہند، ٦٢)
باوا جان
"صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ باوا جان تم چھوٹے مکار اور دغا باز ہو۔" (١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٥:٧)
پامرید
"اے جیو بھاری بھاری تماش بین آئین، الٰہی تمہارے آشنا پامرید رہیں۔" (١٩٢٧ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٢، ٩:٨)
بچاو
"اب اور اصلوں کو سنو اور ذرا ہوش کرو اور بچاو اختیار کرو۔" (١٨٥٢ء، تقویٰ، ٥)
تاڑنا[1]
"سنتے ہی تاڑ گئی کہ یہ صاحب زادی نے گل کھلایا ہے۔" (١٩٠٨ء، "صبح زندگی" ٧٨)
تاڑ[1]
"تاڑ کا درخت زیادہ تر جنوبی خطوں میں پایا جاتا ہے" (١٩١٣ء، "تمدن ہند" ٥٠)
تاڑ کا تاڑ[1]
"وہ. لمبے تڑنگے تاڑ کے تاڑ تھے کسرت کا شوق تھا اور بھنگ کوٹنے کی لت" (١٩٦٣ء، دلی کی شام، ٢٧١)
تاڑ[2]
جو شخص اپنے ہے تاڑ میں سو چھپا ہے دل ہی کی آڑ میں نہ وہ بستی میں نہ اجاڑ میں نہ جھاڑ میں نہ پہاڑ میں (١٨١٨ء، "کلیات انشا" ١٠٣)
تاڑنا[2]
کوئی مطلب موجود نہیں
پاپ[2]
"آپ نے آخری مرتبہ آئس کریم یا پاپ کی بوتل کب پی تھی۔" (١٩٧٠ء، زعمائے سائنس، ١٤٧)
پاپ نگر
شہروں کے ہر فتنہ و شر سے میرا بسیرا اونچا ہے چھینٹوں سے اس پاپ نگر کے دامن اپنا بچاتا ہوں (١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ١٩٣:٢)
پا[5]
"تصویر میں دبلاپا کیا دیکھتے ہو، بسبب علالتِ دائمی کے اس سے بھی آدھارہ گیا ہوں۔" (١٩٠٥ء، داغ، انشاے داغ، ٥٣)
پا[6]
نہیں دیرپا کوئی تعمیر عالم کہ مضبوط اس کا مسالا نہیں ہے (١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٢٢٤)
پاورق
"تدبیر کے صفحات پر ہند سے نہ لگائے پاورق پر اکتفا کی۔" (١٩٢٩ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٤، ٢٣:٦)
پاورقی
"غیر مانوس الفاظ کی تشریح پاورقی (حاشیے) میں کر دی گئی ہے۔" (١٩٦٢ء، مقدمہ جوہر اخلاق، ١٣)
پاپ[3]
"جو مزا چائے کے ساتھ گرما گرم اور رنگا رنگ چاکولات میں ہے وہ ریڈیو کے پاپ گانے کی ہر کیات میں نہیں۔" (١٩٧٥ء، بسلامت روی، ١٩٢)
پاپ میوزک
"پردہ ہٹا تو ایک مقامی ہوٹل کا میوزک گروپ آرکسڑا کے ساتھ موجود تھا جنہوں نے پاپ میوزک اور انگریزی کے تین گانے سنائے۔" (١٩٨٠ء، روزنامہ، جنگ، کراچی، ١٠ ستمبر، ٨)
پاپ شو
"بتایا کہ وہ اس تنظیم کی جانب سے اسی قسم کے |پاپ شو| پاکستان کے مختلف شہروں میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔" (١٩٨٠ء، روزنامہ، جنگ، کراچی، ١٠ ستمبر، ٨)
پاپائیت
"شرح و بسط کے ساتھ ادارہ ہائے پاپائیت اور خلافت کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔" (١٩٥٣ء، ماہنامہ نوائے ادب، بمبئی، ١٠ اپریل، ٣١)
پاپا[2]
"بچے کرارے کرارے بھربھرے پاپے پیالوں میں ڈبو دیتے جو چائے میں بھیگنے کے بعد پھول جاتے۔" (١٩٦٣ء، دلی کی شام، ٤٣٤)
پاپاخ
"سرپر اگرچہ کلاہ پاپاخ نہ تھی۔" (١٨٩٠ء، آب حیات، ٥٠٧)