فیض یاب
"عظیم ہستی . گویا ماضی سے فیض پاتی، اور حال و مستقبل کو فیضیاب کرتی ہے۔" (١٩٦٥ء، غالب کون ہے۔ ٩١)
فیضان نظر
"کچھ دن درویشوں کی صحبت ہی میں سہی ممکن ہے تم بھی فیضانِ نظر سے راہِ راست پر آجاؤ۔" (١٩٨٨ء، قومی زبان، کراچی، اپریل، ١٠٦)
فیکٹ
"وہ اس فیکٹ کو بُھلا سکتی ہے کبھی۔" (١٩٨١ء، راجہ گدھ، ٥٠)
بازارن
"موئی بازارن، تو جب دھگڑے کرتی ہے تو نہیں کہتی۔" (١٨٨٨ء، انتخاب طلسم ہوشربا، ٢٦٦:٣)
بازار والی
"کواری بچی اور ایسا دیدہ دلیر خدا دشمن کا بھی نہ کرے، بازار والیوں کو بھی مات کیا۔" (١٩٢٠ء، بنت الوقت، ٢٦)
بازار نشیں
"پھول باغ میں جو ان دنوں قیام گاہ حضور معلیٰ ہے مینا بازار لگایا اور تمام شہر کے حسینان بازار نشیں کو دوکاندار بنایا۔" (١٨٥٧ء، مینا بازار اردو، ١٧)
بازار مصر
کوئی مطلب موجود نہیں
دیوالی[1]
"ہر سفر اسی طرح کے گوناگوں رنگوں، نت نئے تجربوں اوردیوالی کے دیوں کی طرح جلتی بجھتی یادوں کا حاصل ہوتا ہے"۔ (١٩٨٠ء، دائروں میں دائرے، ٦)
دیوالا[1]
"سبھی تدبیروں سے ہار گئے تو یہ نئ حکمت نکالی ہے یہ اور کچھ نہیں سیاست کا دیوالہ ہے" (١٩٣٦ء، خاک پروانہ، پریم چند، ٤٠)
دیوالا[2]
"جب وہ دیوالا کو جا رہے تھے تو آکاش بانی سنائی دی"۔ (١٩٣٨ء، شکنتلا (ترجمہ)، ١٠١)
دیوالی[2]
دونوں طرف کی باگ ٹوٹ گئی دیوالی تھامی وہ بھی ہاتھ سے چھوٹ گئی (١٩٣٦ء، قدیم نہرو، نہرو متدانِ اودھ، ١٧٩)
بازار کی مٹھائی
"اب شروع ہوئی بازار کی مٹھائی پر چھین جھپٹ یا شاعروں کی زبان میں رقابت۔" (١٩٤٤ء، مقالات ماجد، ٢٩٦)
رال[2]
"روٹی کا ٹکڑا . بچے کے منہ کی رال سے لتھڑا ہوا"۔ (١٩٢٣ء، اہل محلہ اور نا اہل پڑوسی، ١٢)
رال[1]
"مرکزی تجربہ گاہ کراچی نے ایک . چپکانے والا مادہ یا رال تیار کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے"۔ (١٩٦٥ء، کاروانِ سائنس، ١٠٢:٣)
بازاری کوٹھا
"میں ایسے مدارس کو جہاں سے مسلمان بچیاں ایسی تعلیم لے کر نکلیں بازاری کوٹھوں کے برابر سمجھتی ہوں۔" (١٩٣٦ء، راشدالخیری، تربیت نسواں، ١٩)
فروری
"اوائل فروری میں لکھیے اس میں آپ کو زیادہ قطعی اطلاع دے سکوں گا"۔ (١٩٣٣ء، اقبال نامہ، ٣٢٤:٢)
غیق
"غیق غیق کوے کی وہ آواز جسے اردو میں قیں قیں کہتے ہیں"۔ (١٨٩٨ء، ایام عرب (حکایت الصوف)، ٢١٨:١)
بازاری خبر
"کسی زمانے کے حالات مدت کے بعد قلمبند کیے جاتے ہیں تو یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی بازاری افواہیں قلمبند کر لی جاتی ہیں۔" (١٩١٢ء، سیرۃ النبی، ٣٥:١)
بان[1]
|اتم کھیتی مدھم بان| رجوع کریں: (کہاوت)
بان[2]
کوئی مطلب موجود نہیں
ابرمسی
دیکھ کر ابرمسی کو ترے سمجھیں وہ گھٹا رقص طاؤس کریں باغ کی دیواروں پر رجوع کریں:مِسی کی دَھڑی (١٨٧٢ء، مظہرعشق، ٧٣)
بان[3]
تلک پلیتا ماتھے دمن بجر کے بان جیہے بیریں، تیہیں ماریں چوکس کریں نادان (ملک محمد جائسی (شبد ساگر، ٣٤٥٨:٧))
بان[5]
"بان کی ہری شاخوں پر (اس چمنستان عالم میں) طاہران خوش الحان چہچہاتے رہیں"۔ (١٩٣٦ء، ترجمہ شرحِ اسباب، ١٠٣:٢)
بان[6]
کوئی مطلب موجود نہیں
بان[7]
"سات ہزار فیٹ تک بان برانس اور ایار پیدا ہوتے ہیں" (١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ١٨)
بان[8]
"شہزادے اسی بان سے اس کے مکان میں گئے"۔ (١٨٠٣ء، مذہب عشق، نہال چند، ٩)
بان[9]
"حقہ . دس سیر کا ہو گا، نیچے پر بان لپٹا ہوا"۔ (١٩٤٧ء، مضامین، فرحت، ٤٨:٣)
ایسا
["\"ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جہاز کے غرق ہو جانے سے . نقصان ہوا تھا\" (١٩٢٩ء، مضامین، شرر، ٤٤:٣)"]
آن[5]
"میں نے اپنی ٤٠ / ٤٥٠ ڈبل بیرل رائفل کی سیفٹی آن کر کے نشانہ لیا"۔ (١٩٧٢ء، اخبار جہاں، کراچی، ١٦ جون، ٣٤)
آن[4]
"گھر کا جوگی جوگنا، آن گانؤ کا سدھ" ((کہاوت))
آن[2]
["\"ایٹمی گھڑی کی ٹک ٹک کے درمیان وقفے ہیں، ان وقفوں کو ہم آن کہہ سکتے ہیں\"۔"]
آن[3]
آں جنابآں حضرت"آں فرزند کے مزاج کی خیریت درکار ہے" رجوع کریں:آنْحَضْرَت (١٩٣٧ء، واقعات اظفری، ١٣٨)
آن[1]
[" دو دو چھریاں لیے پھرتا ہے حسینوں کا شباب شان ہوتی ہے جدا، آن جدا ہوتی ہے (١٩٢٨ء، سرتاج سخن، جلیل، ٢٠)"," سانولا رنگ ہو کہ گورا ہو آن ہو جس میں خوبرو ہے وہی (١٨٣٦ء، ریاض الجر، ٢٤٩)","\"برگزیدگانِ خدا کی ہرآن سے شانِ الٰہی جلوہ گر ہوتی ہے\" (١٩٠٧ء، تذکرۃ المصطفٰی، ١٥)","\"اچھا میں تم کو تمھاری ماں سے ملتی جلتی ایک شکل دکھاؤں، وہ تمھاری بہن صفیہ ہے جس نے اپنی ماں کی کوئ آن نہیں چھوڑی\"۔ (١٩٢٠ء، لخت جگر، ٤٢:١)"," ایک فقط ہے سادگی تس پہ بلائے جاں ہے تو عشق کرشمہ کچھ نہیں آن نہیں، ادا نہیں (١٨١٠ء، کلیات، میر، ٢٣٢)","\"اس وقت بھی ان میں ایک آن پائی جاتی تھی\"۔ (١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ١٨٥)"," صورت وہی، حشم بھی وہی، شان بھی وہی جامہ وہی، قبا بھی وہی، آن بھی وہی (١٩٤٩ء، مراثی نسیم، ١٥٧:٣)"," کیا تمھیں برات میں جانے کی آن ہے\"۔ (١٩٢٤ء، نوراللغات، ١٤٠:١)","\"ہمارے ہاں تو بڑوں سے آن چلی آتی ہے کہ سیدوں کے سوا کسی کو بیٹی نہ دیں اور نہ کسی کی بیٹی لیں\"۔ (١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٦١)"," قول و عمل ہوں ایک یہ مردوں کی شان ہے حق پر نثار ہوں گے ہماری یہ آن ہے (١٩١٢ء، مرثیہ، شمیم، ١١)"," مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر (١٨٣٠ء، کلیات، نظیر، ٣١٦:١)"," جس نے صورت تک عدالت کی کبھی دیکھی نہ تھی ہاتھ سے جس نے بڑوں آن اب تک دی نہ تھی (١٨٩٢ء، دیوان، حالی، ١٨٠)","\"ان کے یہاں سبز چوڑیوں کی آن ہے\" (١٨٩١ء، امیر اللغات، ١٧٨:١)"," تمھاری عزتیں تھیں، اوج تھا، رتبہ تھا، شانیں تھیں تمھاری بات تھی، احکام تھے، کہنا تھا آنیں تھیں١٩٢١ء، کلیات، اکبر، ٣١٦:١"," ہم گئے دنیا سے وہ آتے رہے اس میں کیا ہے اپنی اپنی آن ہے"]
بدھ[3]
یہ مزید ان کی عنایت ہے کہ عاشق سے اب مل لیا کرتے ہیں بدھ کو بھی سنیچر کے سوا (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٨)
پان[1]
پان بھی بھیجے ہیں تو غیروں کے ہاتھ لطف وہ کرتے ہیں ستم کی طرح
پان[2]
آہار، وہ چیز جو نئے بنے ہوئے کپڑے پر صیقل کرنے کے لیے ملتے ہیں۔ (١٩٩٥ء، ماخوذ : زمان گویا، سہہ ماہی اردو جولائ)
پان[3]
دیا خلق کوں دان ہور پان لے دیا پان ہور دان ہور مان لے۔
پان[4]
رجوع کریں:پانچ
پان[5]
"پان خوب خشک شدہ سیدھے ریشے والی لکڑی سے بنائے جائیں جو . اس قدر سخت ہو کہ اڈے اور پوٹیوں کے سوراخوں میں مضبوطی کے ساتھ جمی رہے"۔ (١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ١٤١)
پان[6]
چار بہاری یا بیس گنڈے برابر ہیں ایک پان کے (١٨٥٦ء، علم حساب، ١٠٨)