آداب[1]
"دشمن کو معلوم ہے کہ شاہی دربار اور جلوس کے رسوم و آداب خاص ہوتے ہیں۔" پاس اس کا بعد مرگ ہے آداب عشق سے بیٹھا ہے میری خاک سے اٹھ کر غبار الگ (١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٥:٣)(١٨١٠ء، میر، کلیات، ٧٩:١)
دھوتی بند
"اجی کن دھوتی بندوں کا ذکر کرتے ہو۔" (١٨٨٧ء، جام سرشار، ٨٩)
دھیمی آواز
"حسرت کا اپنا لب و لہجہ ہے جو انفعالیت سے نظریں نیچی کر کے دھیمی آواز میں بات نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔" (١٩٧٥ء، تاریخ ادب اردو، ٢، ٩٢٣:٢)
دھیمی چال
چلتی ہے دھیمی چال وہ جیسے کھڑی سی ہو بس ایک جسم میں روانی نہ جاں کی ہو (١٩٨٤ء، قہر عشق، ٢١٧)
دہشت زدگی
"یونانی کمیونسٹوں نے جب جبر اور دہشت زدگی سے کام لیا تو تقریباً پانچ لاکھ لوگ جو ان کی تائید میں تھے مخالف بن گئے۔" (١٩٦٥ء، گوریلا جنگ، ٦٤)
دیا[2]
"انہیں کھانے کی چنداں ضرورت نہ تھی کسی نے دیا تو کھا لیا نہ دیا تو نہیں کھایا۔" (١٩٨٦ء، اوکھے لوگ، ١٦٤)
دید و شنید
اوسکا ہے مشاہدہ ہمیں اے غمگین عالم میں کسی کی ہو نہیں دید و شنید (١٧٣٩ء، مکاشفات الاسرار، ٧١)
سامعہ خراشی
"میں نے آج آپ حضرات کی بہت کچھ سامعہ خراشی کی اور اپنے دل کے جوش سے بہت کچھ رطب و یابس بک ڈالا۔" (١٩٠١ء، رسائل عمادالملک، ٢٧٦)
بالشتی
"کاکریزی سرخ میان تہ رضائی بالشتی گوٹ لگی ہوئی اوڑھے - بیٹھی تھیں۔" (١٩٢٨ء، پس پردہ، ٧٢)
سامع نواز
"پہلے قسم کے گیت ترنم اور شیرینی کے باعث سامع نواز ہوتے ہیں۔" (١٩٨٦ء، اردو گیت، ٤٣)
سبز چائے
"پانی خوب کھولائیں جب ابال آنے لگے تو سبز چائے جتنی پسند ہو لے کر اس میں ڈال دیجیے۔" (١٩٤٤ء، ناشتہ، ٦)
سبحان تعالی
"اس سبحانہ تعالٰی نے ہم محمدیوں کو عجیب عنایت خاص سے نوازا۔" (١٩٨٨ء، صحیفہ، لاہور، جولائی، ٣٢)
بالشت بھر
["\"بالشت بھر جگہ ایسی نہ تھی جو محفوظ ہو۔\" (١٩٠٨ء، صبح زندگی، ٢٠٣)"]
سباحت
"ان کی دلیل یہ ہے کہ سباحت (تیراکی) پانی کے بغیر ناممکن ہے۔" (١٩٧٦ء، مقالات کاظمی، ٣٧٦)
سباح
"ناسخ وغیرہ نے ایسے بہت سے الفاظ استعمال کیے ہیں. مثلاً سپرغم، جریدیتن، خالق الاصباح، سباح وغیرہ تو کیوں نہ انہیں متروکات کی فہرست میں درج کیا جائے۔" (١٩٢٥ء، منشوراتِ کیفی، ١٣١)
سب کے سب
سب کے سب روتے تھے صغرا کی طرح وقت سفر گھر سے تابوت کہ گہوارہ اصغر نکلا (١٨٩١ء، تعشق لکھنوی، براہین غم، ٣٢)
سایۂ عاطفت
"میری پرورش اور تعلیم و تربیت کے جملہ مراحل نانا میاں مرحوم. کے علمی سایہ عاطفت میں طے ہوئے۔" (١٩٧٨ء، صد رنگ، ٥)
سایہ رحمت
سایہ رحمت کی صورت پر تو ذات احد آیۂ صبح ازل، سرمایہ شام ابد (١٩٨٤ء، سمندر، ٢٠)
سبق آموزی
"ان کی عظمت و شان کو یاد کر کے آنسو بہاتے اور سبق آموزی کرتے تھے۔" رجوع کریں: (١٩٦٥ء، علامہ اقبال کی داستان دکن، ٧)
سبزی مائل
"سبز نہ سہی سبزی مائل سہی اس قسم کے آسمان دیکھنے کا ہمیں تو کبھی اتفاق نہیں ہوا۔" (١٩٤٢ء، کرنیں، ١٨٢)
سبزی خور
"سبزی خور. ان وہ جانور ہیں جو گھاس، پودے سبزیاں یا بیج کھاتے ہیں۔ ان جانوروں میں ہضمی نالی. زیادہ لمبی ہوتی ہے۔" (١٩٨٥ء، روشنی، ٥٠٨)
سبزۂ نورستہ
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے (١٩٢٤ء، بانگ درا، ٢٦٦)
سبزۂ نوخیز
سبزہ نوخیز سے لطف گلستاں ہے عیاں دیکھ آکر او ستمگر میرے مدفن کی بہار (١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ١٤٣)
سبز مائل
"ایک نہایت لطیف لچکدار مفرد ہے جو عام نمک میں بحساب فیصدی ساٹھ حصوں کے ہوتا ہے اور اصلی رنگ اس کا سبز مائل. ہوتا ہے۔" (١٨٦٥ء، رسالہ علم فلاحت، ١٢)
سبز رنگ
نہو سبز رنگوں میں کیوں ان کی شہرت میرے قتل پر زہر کھائے ہوئے ہیں (١٨٩١ء، تعشق لکھنوی، گلزار تعشق، ١٥)
سبک اندام
ذکر جس میں ہو جمال سبک انداماں کا گفتگو وہ سبک از بادِ سحر ہوتی ہے (١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٣١)
سبک باری
"پرسوں سے ایک حد تک سبکباری کا احساس شروع ہوا ہے۔" (١٩٧٥ء، ن، م راشد، ایک مطالعہ، ٣٢٧)
سبک خرام
"دوست تم کتنے سبک خرام ہو سال تمہارے اوپر سے کھسک جاتے ہیں۔" (١٩٨٦ء، دریا کے سنگ، ١٣٥)
سبک خرامی
"زمانہ کی سبک خرامی اپنا جادو چلاتی رہی۔" رجوع کریں: (١٩٨٨ء، نگار، کراچی، ستمبر، ٥٤)
سپاٹ آواز
"نفیسہ کی سپاٹ آواز فضا میں گونجی۔" (١٩٨٦ء، سہ حدہ، ٨٣)
سپاس نامہ
"میں نے صدر نیشنل کانفرنس کی حیثیت سے صدر انڈین نیشنل کانگریس مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٣٣١)
سپاہ گری
"یہ بھی اپنے آقا کی طرح سپاہ گری کا دم بھرتے ہیں۔" (١٩٤٩ء، مقالاتِ شروانی، ٢٣)
سپاٹ پن
"یہ خیال اقلیدس سپاٹ پن کے بالکل برعکس ہے۔" (١٩٨٦ء، مطالعہ اقبال کے چند پہلو، ٢٣)
سپاٹ چہرہ
"اگر لڑکی ہو جائے تو. وہ کہتے کہتے چپ ہوگئیں اور بہو کی طرف دیکھا جو بالکل سپاٹ چہرہ لیے چھت کو تک رہی تھی۔" (١٩٨٥ء، کچھ دیر پہلے نیند سے، ١٦٢)
بالائی منزل
کوئی مطلب موجود نہیں
کرافٹ
"کسی کرافٹ یا کسی مشق ریاضت کے بغیر صرف اپنے لاشعور سے میں تصویریں بنانے لگا۔" (١٩٨٦ء، آنکھ اور چراغ، ٦٦)
کرافٹس مین
"عورت خالق ہے اور مرد کرافٹس مین ہے۔" (١٩٨١ء، سفر در سفر، ١٠٤)
کرانتی کار
" "کرانتی کار" گّپتے نے تضحیک کے انداز میں کہا۔" (١٩٧٦ء، نقوش، جنوری، ١٤)
کراہ[1]
ہر نَفس اک کراہ در آغوش ہر قدم وقفِ جُستجوئے معاش (١٩٨٠ء، تشنگی کا سفر، ١٢٨)
کشیدہ خاطری
"دنیا دیکھ لے کہ اسفند یار کو سلیم اس وقت صرف ایک ملزم تصور کرتا ہے نیز کشیدہ خاطری بھی ظاہر ہو جائے۔" (١٩٦٧ء، عشق جہانگیر، ٢٠٦)