در[1]

 زنار شکار و سجہ در دام مے خانے کی شب کنشت کی شام (١٩٥٥ء، نبضِ دوراں، ٦٦)

ابن بجدہ

"میں اس زمین کا ابن بجدہ، کھونٹیا، واقف کار، خبردار ہوں۔" (١٨٨٨ء، تشنیف الاسماع، ١١٩)

دراوڑی

"یہ نو وارد جنہیں دراوڑی نسل سے منسوب کرتے ہیں پرانے باشندوں سے بہتر خدوخال رکھتے تھے ان کے سر لمبوترے اور قد ذرا کشیدہ تھا۔" (١٩٥٣ء، تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت، ٥:١)

دانش مندانہ

انہوں (لیاقت علی خان) نے قائداعظم کے سامنے کچھ ایسے دانش مندانہ اور مسحور کن انداز اور دلائل کے ساتھ مسلمانان ہند کی حالت زار پیش کی کہ . وہ بالآخر . مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے آمادہ ہو گئے۔" (١٩٨٦ء، جنگ، کراچی، ١٦، اکتوبر ، ١٨)

دراز دامن

 ایسا دراز دامن، نہیں ہاتھ ان کے آتا بختوں میں عاشقوں کے کیا نارسائیاں ہیں (١٧٥٥ء، یقین، دیوانی، ٣٨)

دربار رسالت

"حضور قبلہ شاہ صاحب کو دربارِ رسالت سے نوازا گیا۔" (١٩٨٥ء، من کے تار، ٣٤)

دربار صاحب

"اس (امرت سر) کی شہرت سکھوں کے گوردوارہ دربار صاحب کی وجہ سے ہے۔" (١٩٦٢ء، اردو انسائیکلوپیڈیا، ١٥٦)

دربار عام

"مغفور نے محل سے برآمد ہو کر دربارِ عام کیا۔" (١٨٩٠ء، فسانہ دلفریب، ٨٣)

درباری پوشاک

کوئی مطلب موجود نہیں

درباری زبان

"گو ان ترکوں کی مادری زبان ترکی تھی مگر . علمی لحاظ سے بھی فارسی ہی ان کی درباری زبان تھی۔" (١٩٦١ء، تین ہندوستانی زبانیں، ١١٨)

صاحب تقوی

"اللہ کی نظر میں عزت والے وہ ہیں جو صاحبِ تقویٰ ہیں۔" (١٩٨٥ء، روشنی، ١٦٥)

صاحب تاثیر

 جب سمجھتے تجھے ہم صاحبِ تاثیر اے دل زیبِ آغوش جو وہ دلبرِ مہ رو ہوتا (١٨٤٥ء، دیوان نسیم دہلوی، ٦٣)

صاحب باطن

"حالی یونانی رو سے ایک معتدل اور متوسط الکامل انسان تھے تو صوفیانہ خیالات کی رو سے صاحب باطن ولی تھے۔" (١٩٨٩ء، قومی زبان، کراچی، فروری، ٤٥)

صاحب ایمان

 اوس بت کو دیکھ آئے اوسی کی سی کہتے ہیں کوئی جہاں میں صاحب ایمان رہا نہیں (١٨٤٥ء، دیوان نسیم دہلوی، ١٨٥)

صاحب ایجاد

 جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ (١٩٣٦ء، ضرب کلیم، ١٧٠)

ابن اللہی

 نہ انھیں فخر کلاہی نہ انھیں دعویٰ ابن اللہی (١٨٩٦ء، مثنوی امید و بیم، ٢٤)

صاحب اولاد

 ہے زوجہ بھی صاحبِ اولاد موچی کھوے میں ہے اسے رکھ یاد (١٨٦٠ء، مثنوی بحر مختلف، ٤)

صبح گاہ

["\"اکثر لاحقوں کو بھی علاحدہ لکھا جائے گا جیسے . نمایش گاہ، آشوب گاہ، صبح گاہ، قیام گاہ۔\" (١٩٧٣ء، اردو املاء، ٤٧٠)"]

صبا رفتاری

"انسانی زندگی ایک ایسے عمل مسلسل کا نام ہے . جس کی صبا رفتاری کے آگے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنا ممکن نہیں۔" (١٩٨٣ء، اردو ادب کی تحریکیں، ٤١)

صاحب شعور

"اس کے بعد سخن منجر ہوا نفس نباتی کے صاحب شعور ہونے پر کہ قد مانے پروفیسر بوس کا اس مسئلہ میں کتنا ساتھ دیا ہے۔" (١٩٣٢ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، ١٧، ١٠:٣)

صاحب سیف و قلم

 خط تراشی سیں ہوئے جو خو برو جگ میں علم اون کے تیئں برجا ہے کہنا صاحبِ سیف و قلم (١٧١٨ء، دیوان آبرو، ٢٨)

صاحب کلام

"کسی کلام پر بہتر محاکمہ وہی شخص کر سکتا ہے جو خود صاحب کلام کو بھی بخوبی جانتا ہو۔" (١٩٨٤ء، ذکر خیر الانام، ١١)

ابن اللہ

"وہ رہبانیت کے عہد کو توڑ کے شہوت پرست ہو گیا اور دربار ابن اللہ سے اسے سزا ملی۔" (١٩١٧ء، جویائے حق، ١٤٩:١)

صبح نو

 ہر صبح نو سے پوچھا میں نے کرنیں کدھر ہیں، سورج کہاں ہے (١٩٥٦ء، نبضِ دوراں، ٢٧٦)

صاحب علم

"وہ بڑا گیانی یعنی صاحب علم ہے۔" (١٨٨٤ء، تذکرہ غوثیہ، ١٤٢)

صاحب ایثار

کوئی مطلب موجود نہیں

صاحب علاقہ

"جب اوورسیر یا صاحب علاقہ آتا . تو سب کی طرف سے میں ہی ترجمانی کیا کرتا۔" (١٩٧٣ء، جہان دانش، ٨٧)

صاحب الشرطہ

"امیر ہی صاحب الشرطہ (پولیس افسر) کی مدد سے جسے وہ خود مقرر کرتا تھا، امن و امان قائم رکھتا تھا۔" (١٩٢٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٢٦٢:٣)

صاحب عقل

"میں کسی صاحب عقل کو آج تک نہیں دیکھا کہ تثلیث کو توحید پر ترجیح دیتا ہو۔" (١٨٩٦ء، فلورا فلورنڈا، ٥٠)

صاحب صدر

 صاحب صدر پڑھ چکیں تو میں سناؤں گا غزل اوروں کا ہے مقام اور میرا مقام اور ہے (١٩٨٦ء، قطعہ کلامی، ٩٧)

ابوالقاسم

"بشارت ہو کہ حضرت ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین پر ظاہر ہونے کا زمانہ آیا۔" (١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٨٤:٣)

صاحب فطرت

"تھوڑے ہی ایسے عالی دماغ، ذہین، ذکی اور صاحب فطرت حکیم ہوتے ہیں۔" (١٨٨١ء، تہذیب الاخلاق، ٢، ٢٥٤:٢)

صاحب وفا

 اگر تم در حقیقت بے وفا ہو! بہت صاحب وفا میں بھی نہیں ہوں (١٩٢٨ء، معارف جمیل، ١٠٩)

صادق العزم

"اس کی تکمیل صادق العزم محبان تاریخ کے ہاتھوں ہو گی۔" (١٩٥٩ء، مقالات برنی، ٧٦)

صاحب ہمت

"کسی صاحب ہمت نے جائنٹ سیکرٹری کی نظر کرم حاصل کرنے کے لیے خوشامد اور چاپلوسی سے کام لیا تو اس کا مقصد آسانی سے پورا ہو جاتا تھا۔" (١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٣١٤)

صاحب مسند

 خشت رکھ کر زیر سر سوتا ہے خاک گور پر صاحب مسند ہو تو یا صاحِب سجادہ ہو (١٨٤٦ء، کلیات آتش، ١٢٣)

قرون وسطی

"قرون وسطٰے میں مسلمانوں نے اور خصوصاً مسلمان کیمیاگروں نے استقرائی رویہ اپنانے کی کوشش کی تھی۔" (١٩٨٥ء، سائنسی انقلاب، ١٦)

قرون اولی

"ایک اور چھ کے مقابلے میں قرون اولٰی کی یاد آتی ہے۔" (١٩٨٦ء، فیضان فیض، ١٠٨)

قرآن حکیم

"حمیع علوم کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے۔" (١٩٧٦ء، مقالات کاظمی، ٤٠٠)

قرار جاں

"قرار جاں کیسے پا سکے گا۔" (١٩٨٦ء، تماشا طلب آزار، ١٣٩)